Sunday, March 12, 2017

For Live Cricket Streaming
 Hardware Interrupts and TSR programs
The keyboard buffer
Keyboard Buffer
• Keyboard Buffer is located in BIOS Data Area.
• Starts at 40: IEH
• Ends at 40 : 3DH
• Has 32 byes of memory 2 bytes for each
character.
• Head pointer is located at address 40 : 1A to
40:IBH
• Tail pointer located at address 40 : IC to 40:IDH
The keyboard buffer is a memory area reserved in the BIOS data area. This area stores the
ASCII or special key codes pressed from the keyboard. It works as a circular buffer and
two bytes are reserved for each character, moreover 2 bytes are used to store a single
character. The first character stores the ASCII code and the second byte stores 0 in case
an ASCII key is pressed. In case a extended key like F1- F12 or arrow key is pressed the
first byte stores a 0 indicating a extended key and the second byte stores its extended key
code.

Circular buffer
40:1AH
40:1CH
40:1EH
Head Tail
40:3DH
The circular keyboard buffer starts at the address 40:1EH and contains 32 bytes. The
address 40:1AH stores the head of this circular buffer while the address 40:1CH stores the
tail of this buffer. If the buffer is empty the head and tail points at the same location as
shown in the diagram above.
Storing characters in the keyboard buffer
83
0
0
‘B’
0’
‘A’
0x20
0x21
0x22
0x23
Head = 0x24
0x1E
Tail
The above slide shows how characters are stored in the buffer. If ‘A; is to be stored then
the first byte in the buffer will store its ASCII code and the second will store 0, and if
extended key like DEL is to be stored the first byte will store 0 and the second byte will
store its scan code i.e. 83. The diagram also shows that head points to the next byte where
the next input character can be stored. Also notice that head contain the offset from the
address 40:00H and not from address 40:1EH. i.e. it contain 0x24 which is the address of
the next byte to be stored relative to the start of BIOS data area and not the keyboard
buffer.







چیئرنگ کراس لاہور میں خودکش دھماکے کے بعد باجوڑکے رہنے والے گرفتار سہولت کار انوار الحق نے دوران تفتیش بتایاکہ اس کے پاس کل چھ خودکش جیکٹس تھیں ۔ چار جیکٹیں اس نے سانحہ یوحنا آباد ، سانحہ گلشن اقبال اور سانحہ چیئر نگ کراس میں حملہ آواروں کو فراہم کیں جبکہ دو جیکٹیں اگلے ٹارگٹ میں استعمال کرنی تھیں جو گرفتاری کے بعد سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اپنے قبضے میں لے لیں ۔ اس نے مزید بتایا کہ سانحہ چیئرنگ کراس سے قبل ایک دربار پر حملہ کرنے کاٹاسک ملا تھا لیکن بعد میں تبدیل کرکے کہاگیا جہاں پولیس افسران اکٹھے ملیں وہاں حملہ کردو ۔ چیئر نگ کراس میں یہ موقعہ مل گیا ۔ 

ایک طرف یہ انکشافات تو دوسری جانب خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پرویز خٹک کی زہر آلود دھمکیاں اور بھڑکیں انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ان کا لب و لہجہ اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے ۔ وہ گزشتہ دنوں لاہور آئے اورپختونوں کے ایک جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔شہبازشریف باز آجاؤ ، پختونوں کو نہ ستاؤ ۔ پختون دہشت گرد نہیں اگر وہ قربانیاں نہ دیتے تو دہشت گرد تمہارے گھروں تک پہنچ چکے ہوتے ۔ایسا ہی بیان پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دے چکے ہیں کہ پنجاب میں پختونوں کے ساتھ ہونیوالے سلوک سے وفاق کمزور ہوگا ۔جبکہ بلوچستان اسمبلی نے بھی بلوچوں کے ساتھ سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔اس کے باوجود کہ جماعت اسلامی کی پالیسی ہمیشہ صوبائی تعصب سے بالاتر رہی ہے لیکن بطور امیر مولانا سراج الحق نے تاریخ میں پہلی مرتبہ منصورہ لاہور میں پختونوں کا جرگہ بلاکر جماعت اسلامی کے منشور اور روایات سے یکسر مختلف اقدام کیا ۔ زہر انڈیلنے میں وہ پرویز خٹک سے بھی آگے نکل گئے ۔انہوں نے منصورہ میں پختون جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے وہی زہر آلود باتیں کیں جو پرویز خٹک کرچکے تھے ۔ 

چند دن پہلے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق آرمی کے جوانوں نے صوابی کے قریب دہشت گردوں کوجب پکڑنا چاہا تو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پاک فوج کے ایک کیپٹن جنید اور سپاہی امجدکوشہید کوکردیا ۔جبکہ ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں ماجد سکنہ( صوابی) ، یوسف عرف چھوٹا خالد اور جواد جو خیبرپختونخواہ کے ہی علاقے (ملک آباد) کے رہنے والے تھے ۔ میں یہ بات وزیر اعلی خیبر پختونخواہ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا فوج کے افسر اور جوانوں کو شہید کرنے والے دہشتگرد بھی فرشتے تھے ۔ اب اس سے اگلی خبر ملاحظہ فرمائیں پنجاب میں سرچ اور کومبنگ آپریشن کے تحت درجنوں مشکوک افراد کو حراست میں لے کر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کرلیا ۔ملتان سے آنے والی رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں خانیوال سے قاری محمداقبال ، شیراز رسول شامل تھے جبکہ حافظ آباد سے قریب ایک گاڑی کی تلاشی کے دوران بھاری اسلحہ پکڑا گیا ملزمان کا تعلق پنجاب کے علاقے حافظ آباد سے بتایاگیا۔یہ ملزمان قبائلی علاقوں سے اسلحہ لاکر پنجاب کے دہشت گردوں کو فروخت کرتا تھا ۔

کہنے کامقصد یہ ہے کہ دہشت گردوں کی نہ کوئی قوم ہوتی ہے اور نہ شناخت۔ اگر پنجاب کے لوگ پنجابی دہشت گردوں اور مجرموں کو معصوم قرار دے کر، سندھی عوام، سندھی دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو ہیرو بنا کر ، بلوچی عوام ، بلوچ لبریشن آرمی کو معصوم قرار دینے لگے تو کیا اس طرح پاکستان اپنا وجود برقرار رکھ سکے گا ۔ کیا پاک فوج اپنا اتحاد اور ڈسپلن قائم رکھ سکے گی اور اگر خدانخواستہ یہ اتحاد اور ڈسپلن ختم ہوگیا تو نتائج کس قدر خطرناک ہوں گے کبھی اس کے بارے میں بھی زہریلے بیانات دینے والوں سوچا ہے ۔ دلوں میں تھوڑی سی بھی دراڑ پڑ جائے تو پھریہ دراڑ کبھی ختم نہیں ہوتی ۔ قومی یکجہتی اور سا لمیت کے خلاف زہراگلنے والے 1971ء کے سانحے کو کیوں بھول جاتے ہیں۔ جب بنگالیوں بے اعتبار ٹھہرے توافواج پاکستان کے تینوں اداروں کوناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔مغربی پاکستان میں تو پھر کچھ صورت حال بہتر رہی لیکن مشرقی پاکستان میں جس قدر تکلیف دہ مناظر سامنے آئے اس کا ذکر الفاظ میں نہیں کیاجاسکتا ۔ اگر کسی کو شک ہے تو اس دور کی کوئی کتاب لے کر پڑھ لے ۔جس میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستانی فوجیوں اور سویلین کے ساتھ انتہائی درد ناک اور وحشت ناک وارداتوں کی بھیانک تصویر نظر آتی ہے ۔ یہ وہ تلخ حقیقتیں ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ کبھی صوبائیت پھیلا کر ، تو کبھی مسلکی اختلافات کو ہوا دے کر تو کبھی ذات برادری کو اونچ نیچ کی شکل دے کر جو مظاہر ے پاکستانی معاشرے میں دیکھنے میں آرہے ہیں وہ نہایت تکلیف د ہ ہیں ۔ ان کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیئے ۔

نفرتوں کے بیج اگر زمین میں بوئے جائیں گے تو پھول نہیں اگتے بلکہ کیسے کانٹے اگتے ہیں جو جسم میں پیوست ہوجاتے ہیں اور زخموں سے بہنے والا خون کسی کا بھی ہوسکتا ہے ۔ اﷲ نہ کرے وہ وقت آئے ۔ کسی کی ماں کو گولی دو تو لوگ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں کیا یہ وطن ہماری ماں نہیں ہے کیا ہم ماں کی گالیاں سن کر بھی اسی طرح خاموش رہیں گے جس طرح آجکل محب وطن افراد کی اکثریت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور اخبارات اور ٹی وی لوگوں کو وطن عزیز کے خلاف زہر اگلتے ہوئے دیکھ کر خاموشی اختیار کی جارہی ہے ۔ 

نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اگر تم برائی کے خلاف ہتھیارسے جہاد نہیں کرسکتے تو زبان سے مخالفت کر لو اگر ایسا بھی نہ کرسکو تو کم ازکم دل میں ہی اس کے بارے میں برا سو چ لوں ۔ زہر آلود بیانات دینے والوں کی نقل و حرکت اور حشرسامانیوں دیکھ کر ہم میں سے کسی بھی شخص میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ وطن عزیز کی سالمیت اور پاکستانیت کے خلاف بات کرنے والے کی زبان کو حلق سے باہر کھینچ لے ۔

گھر کی حفاظت گھر کے افراد ہی کرتے ہیں کوئی باہر سے آکر گھر کو نہیں بچاتا۔ اگر گھر کے افراد ہی باہم دست گریبان ہوجائیں تو اس گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا ۔ پاکستان ہمارا گھر اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ جس طرح پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے اور گلگت کے لوگ پاکستان کے محافظ ہیں اسی طرح افواج پاکستان میں بھی پٹھان پنجابی سندھی بلوچی ، گلگتی اور کشمیری شامل ہیں جو پاکستان کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کررہے ہیں۔ خدانہ کرے پرویزخٹک ، محمود اچکزئی ، مولانا سراج الحق اور اسفند یار ولی جیسے مکروہ لوگوں کا سایہ بھی ان پر پڑے ۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو کیا پاک فوج دنیا کی عظیم فوج رہ سکے گی۔ اگر فوج نہ رہی تو کیا ہم سب آزاد اور باوقاررہ کر زندگی گزار سکیں گے ۔ہمیں اس لمحے شام اور عراق کا حشر نہیں بھولنا چاہیئے جو سارے کا سارا ملک ہی کھنڈر کا ڈھیر بن چکا ہے اور شامی مسلمان یا تو اپنی ہی فوج اور ان کے خلاف لڑنے والے باغیوں کے ہاتھوں میں شہید ہوکر قبرستان میں جاسو ئے ہیں یا وہ سمندری لہروں کی نذر ہوکر موت کی وادی میں جاسوئے ہیں ۔ اب بھی مارتے ہیں اور بیگانے بھی جینے نہیں دیتے ۔اس مسلکی جنگ میں امریکہ ، سعودی عرب اور روس ،ایران کی شرکت نے صورت حال کو اور بھی گھمبیر بنا دیاہے ۔ آٹھ دس لاکھ شامی مسلمان جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں لیکن وہ راستہ نہیں مل رہا جس پر چل کر پرامن زندگی کی جانب پیش قدمی کی جائے ۔ 

بھارت ، امریکہ،اسرائیل اور افغان حکمران ، پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ امریکی ، بھارتی اور افغانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہمارے ملک میں اپنا نٹ ورک کامیابی سے بنا چکی ہے اور ہمارے ہی ہم وطن پاکستانیوں کو جن میں پنجابی پٹھان بلوچی اور سندھی لوگ بھی شامل ہیں پیسوں کا لالچ دے کر بم دھماکوں اور خود کش دھماکوں کے لیے اپنے ساتھ ملا چکی ہیں لیکن ہمارے بعض ناعاقبت اندیش سیاسی رہنمااور مذہبی لیڈر ان دہشت گردوں کو فرشتہ اور اپنا ہیرو ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔جن کی کاوشیں ہر سطح پر قابل نفرت اور قابل احتساب ہیں ۔

ہم یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اگر نفاق اور نفرت کے اس راستے پر چل رہے ہیں جو انتشار اور بربادی کی طرف جارہاہے ۔ تو ان کو روکنے اور قانون کی گرفت میں لانے کے لیے ہمارے حکمرانوں کے پاس وقت نہیں ہے ۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ذمہ دار حکومتی عہدوں پر فائز لوگ بھی ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔حالانکہ جس کو پاکستانی عوام اپنی نمائندگی کا حق تفویض کرتے ہیں انہیں بات کرنے سے پہلے تولنا پھر بولنا چاہئیے ۔کہنے والے تو اب یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران اور الطاف حسین کے زہر آلود بیانات میں اب کوئی فرق نہیں رہ گیا۔وہ کراچی بند کرنے کی دھمکی دیاکرتے تھے اور عمران پاکستان ہی بند کرنا چاہتے ہیں ۔پاکستان سپرلیگ ٹو کافائنل کا انعقاد تو متحدہ عرب امارات میں ہواتھالیکن لاہور میں فائنل میچ کروانے کا فیصلہ کرلیا گیا ۔اس پر پوری پاکستانی قوم بہت پرجوش تھی لیکن عمران خان سے قوم کی خوشی برداشت نہیں ہوئی اور فورا ہی بیان داغ دیا کہ لاہور میں فائنل کروانا پاگل پن ہے اور فوج کی نگرانی میں تو عراق اور شام میں بھی ورلڈ کپ کا فائنل کروایا جاسکتاہے ۔ یہ اس قدر زہریلا بیان تھا جو کوئی بھی محب وطن پاکستانی نہیں دے سکتا تھا لیکن عمران خان پاکستان کو بدنام کرنے اور نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔ اسی بیان کو بنیاد بنا کر کوئٹہ کے سب سے ممتاز کھلاڑی( جن میں پیٹرسن بھی شامل تھے) یہ کہتے ہوئے لاہور میں فائنل کھیلنے سے انکار کردیا کہ جب عمران خود لاہور میں فائنل کروانے کو پاگل پن قرار دے رہا ہے تو میں اس پاگل پن کا حصہ کیوں بنوں ۔پیٹرسن اور کچھ دیگر کھلاڑیوں کے واپس جانے سے کوئٹہ کی ٹیم میں جو مضبوطی تھی اس میں بے حد کمی واقعی ہوگئی جس کا عملی مظاہرہ فائنل میچ کے دوران بخوبی دیکھاگیا ۔

بہرکیف پھر جب وزیر اعظم نواز شریف ، آرمی چیف اور وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی مشترکہ کوششوں سے لاہورمیں فائنل میچ کاانعقاد کچھ اس شاندار طریقے سے ہواکہ اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور کراچی سے پشاور تک لوگوں نے ایک ہی دن میں ٹکٹ خرید کر ریکارڈ قائم کردیا ۔ اگر 26 ہزار شائقین سٹیڈیم کے اندر موجود تھے تو اس سے دو گنا زیادہ شائقین ٹکٹ سے محروم رہنے کی بناپر شہروں میں لگی ہوئی سکرینوں پر میچ دیکھ رہے تھے ۔کراچی ، کوئٹہ ،پشاور میں بھی بہت اہتمام سے فائنل میچ دیکھاگیا ۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق ، شیخ رشید احمد ، جاوید ہاشمی سمیت کتنے ہی سیاست دانوں نے یہ شاندار میچ گراؤنڈ میں عوام کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا اس رنگارنگ میچ میں پاک فوج کی پیراشوٹ کے ذریعے جہاز سے زمین پر اترنے کامظاہرہ ، بہترین میوزک شو بھی کرکٹ میچ کے علاوہ شامل تھے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سارے پاکستان نے مل کر یہ میچ نہ صرف دیکھا بلکہ بہت انجوائے کیا کیونکہ یہ صرف میچ نہیں تھا بلکہ پاکستان سے روٹھی ہوئی کرکٹ واپس لانے کی ایک کوشش تھی ۔ اس فائنل میچ کے پرامن انعقاد کے بعد زمباوے کی ٹیم پاکستان آنے پر آمادہ ہوچکی ہے ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز سے بات چیت جاری ہے تو قع ہے کہ ان میں دوایک ٹیم ضرور پاکستان میں میچ کھیلنے پر آمادہ ہوجائے گی ۔اس لمحے جب ہر کوئی پاکستانی پرامن فائنل میچ ہونے پر خوشی منا رہا تھا تو عمران خان سے قوم کی یہ خوشی بھی نہیں دیکھی گئی اور فورا زہر آلود بیان داغ دیاکہ پاکستان سپر لیگ میں پھٹیچر قسم کے کرکٹر بلوائے گئے تھے جن کو کوئی ملک بلانے کی خواہش نہیں رکھتا ۔ ان کو اگر پیسہ دیا جائے تو وہ کسی بھی خطرناک جگہ پر جاکر کھیل سکتے ہیں ۔

ہونا اعزاز تھالیکن عمران خان نے پہلے اسے پاگل پن قرار دیا اب چہرہ بگاڑ کر کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں۔کیا عمران سمیت یہ زہر آلود باتیں کرنے والے قانون سے بلندترہیں ، کیا ان کی زبان کو حلق سے باہر نہیں نکالا جاسکتا۔اگر الطاف حسین پر غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے تو عمران ، پرویز خٹک ، محمود اچکزئی ،اسفند یار ولی پر کیوں نہیں بن سکتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی آستین میں کتنے ہی ملک دشمن چھپے بیٹھے ہیں جو پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کے خلاف روززہر اگلتے ہیں اور گرفت سے محفوظ رہتے ہیں ۔ کیا وزیراعظم کی حیثیت سے وطن عزیز کو غداروں سے محفوظ رکھنا نواز شریف کی ذمہ داری نہیں ہے اگر اسی طرح وہ خاموش رہے اور خدانخواستہ ملک کی سالمیت کونقصان پہنچا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ وہ جس سی پیک منصوبے کی گردان ہر لمحے کرتے رہتے ہیں۔ پھر نہ سی رہے گی اور نہ ہی پیک کہیں نظر آئے گا ۔ یہ گیم چینجر منصوبہ اسی وقت قابل عمل ہوگا جب تمام صوبے پاکستان کا حصہ رہیں گے اورتمام لوگوں کے دل میں محبت ، چاہت ، احترام اور رواداری پیداہوگی ۔ ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کرنے سے محبت بڑھتی ہے ۔لیکن غداروں کا سرکچل کر اپنے گھر ،وطن اور ملک کی حفاظت کرنابھی بہت ضروری ہے ۔کیا نواز شریف اور دیگر صوبائی حکمرانوں کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ایسے مکروہ لوگ جو زہر آلود باتیں کرتے پھرتے ہیں ان کے اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف انتشار پھیلانے اور بغاوت پر اکسانے کے مقدمات قائم کرکے انہیں مشق ستم بنائیں ۔ مولانا فضل الرحمان بظاہر تو نواز شریف کے دوست اور حمایتی ہیں لیکن ان کی وفا دار ی صرف اور صرف اپنے مفادات کے لیے ہوتی ہے وہ مفادات بھی حاصل کرتے ہیں اور دھمکیاں بھی خوب دیتے ہیں ان جیسا شاطر انسان پاکستانی سیاست میں نہیں دیکھاگیا ۔ انہوں نے قبائلی علاقوں کے عمائدین کی رگوں میں ہی زہر انڈیلنا شروع کررکھا ہے ۔وہ دل سے نہیں چاہتے کہ قبائلی علاقے پاکستان میں شامل ہو ں۔ وہ رہتے پاکستان میں ہیں لیکن دم افغانستان اور دہشت گردوں کا بھرتے ہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ بھی نواز شریف کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہیں ۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کی آستین میں نہ جانے کتنے ایسے ہی سانپ چھپے ہیں جو روزانہ زہر اگلتے ہیں لیکن نواز شریف کی زبان سے ایک لفظ بھی ان کے خلاف ادا نہیں ہوتا ۔کیااس طرح وزیر اعظم نواز شریف اپنی وطن پرستی اور اچھی شہرت کو داغدار نہیں کررہے ۔ وہ ملک دشمن عناصر کو کھلم کھلا کھیلتے ہوئے دیکھ کر اپنی توجہ سی پیک منصوبے پر ہی مرکوز رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر نفرتوں کایہ آلاؤ آسمان کو چھونے لگا تو پھر نہ سی رہے گااور نہ پیک ۔ ہرمنصوبہ یکجہتی کے ماحول میں ہی پروان چڑھتا ہے نہ جانے کیوں یہ بات نوازشریف اور شہباز شریف کو سمجھ نہیں آتی ۔ اگر وہ پرویز خٹک کے ساتھ مل کر ان کی غلط فہمیاں دور کردیتے تو شاید انکی زبان سے قومی یکجہتی کے حق میں کوئی میٹھا لفظ بھی نکل آتا ۔ لیکن شہباز شریف نے بھی لاپرواہی کامظاہرہ کرکے چنگاری کو شعلے بنانے میں اپنا کردار ادا کیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر نواز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے زہر اگلنے والے سانپوں کا سر نہ کچلا تو یہ پاکستان کی سلامتی ، یکجہتی اور سا لمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیں گے اور اس کے ذمہ دار بلا شبہ نواز شریف ہی ہوں گے ۔کیونکہ یہ سب کچھ انہی کے دور کا شاہکار بنے گا ۔ جہاں انہیں آج تک ایٹمی دھماکوں ،موٹرویز کی تعمیر ، سی پیک پراجیکٹ ، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے تقریبا خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نیک نامی اور معاشی استحکام کا کریڈٹ انہیں ملتا ہے وہاں ان کے دور میں ہونے والے منافقانہ حرکتوں ،بیانات اور مظاہرہ کا کریڈٹ بھی یقینا انہی کے کھاتے ہیں جائے گا ۔ 

ضرورت اس امرکی ہے کہ جو شخص بھی ( چاہے وہ وفاقی یاصوبائی وزیر ہی کیوں نہ ہو )اگر وہ قومی یکجہتی ، فوج ، عدلیہ کے خلاف کوئی زہریلا بیان جاری کرے اور سیاسی منافرت پھیلانے میں اس کا ہاتھ نظر آئے تو اسی وقت قانون کو حرکت میں آجانا چاہیئے اور ایسے شخص کو ہر قسم کے سیاسی و انتظامی عہدے پر ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دینے کے ساتھ ساتھ عمر قید کی سزا بھی دی جانی چاہیئے ۔ اگر ایسا کیاگیا تو ہوسکتا ہے کہ یہ مکرو ہ اور قابل نفرت لوگ پاکستان کے خلاف اپنی زبانیں کھولنے سے پہلے کچھ بار سو چ لیں وگرنہ جیسے پرویز خٹک وزیر اعلی خیبر پختوانخواہ کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود لاہور میں آئے اور اپنی زہر آلودہ گفتگو سے سارے ماحول کو پرگندہ کرکے چلتے بنے ۔ وہ پختون بھائی جو مدت دراز سے پنجابی کلچر کا حصہ بن کر پرسکون انداز سے اپنی زندگی اور کاروبار چلا رہے تھے انہیں صوبائی تعصب کے رنگ میں رنگ کر پرویز خٹک نے ایک قومی سطح پر ایک ایسی دراڑ پیدا کرنی کی جستجو کی ہے جس کو فوری طور پر اگر نہ بھرا گیا تو یہ دراڑ آگے چل کر بہت وسعت اختیار بھی کرسکتی ہے ۔ اﷲ نہ کرے ایسا ہو ۔


گزشتہ شب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ فیکٹری آفس میں بیٹھا گرما گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اسی اثنا ء میں ایک انڈے بیچنے والا لڑکا آگیا۔عمر کوئی 13-12 سال ہوگی شکل پہ ہی لکھا تھا کہ فاقوں کا مارا ہے۔دروازے کے باہر کھڑا ہمیں دیکھتا رہا۔میں نے اندر آنے کا اشارہ کیا تو دوروازہ کھول کر اندر آگیا۔میں نے کہا اس یخ سردی کے موسم میں اور اس وقت انڈے کیوں بیچ رہے ہو؟کیا مجبوری ہے؟سکول جاتے ہو؟کہنے لگاکہ صاحب پہلے سکول جاتا تھا اب چھوڑ دیا ہے۔میرے والد وفات پا چکے ہیں۔میں اپنے گھر میں سب سے بڑاہوں ۔میں نے پوچھا باقی بہن بھائی تو کہنے لگا وہ مجھ سے چھوٹے ہیں اور سکول پڑھتے ہیں۔میں صنعت روڈ پر خرادکا کام سیکھ رہا ہوں،وہاں سے 4ہزار ماہوار ملتا ہے۔میری ماں شادی بیاہ پر برتن دھوتی ہے اور کپڑے سلائی کر تی ہے۔اس نے اپنے گھر کا پتہ بھی بتایا،مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ہمارے ایریا کے قریب ہی رہتا ہے ،اور ہمیں معلوم ہی نہیں۔میرا دل کیا کہ اس کو کچھ نہ کچھ پیسے دوں۔ عجیب بے چینی میں اٹھا باہر نکلا۔ پیسے دینے کی ہمت نہ ہو سکی ،کہیں اسکی خوداری کو ٹھیس نہ پہنچے۔بھیک یہ مانگ نہیں رہا،انڈے بیچ رہا ہے ،تاکہ محنت کی روٹی کھا سکے اور گھر والوں کو کھلا سکے اس کی بھی ماں ہے۔جس کا دل ہر وقت اس میں اٹکا رہتا ہوگا کہ کب انڈے بکیں اور اس کا لعل گھر آئے۔ سخت سردی میں ٹھٹھرتا لعل۔ جو اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے سخت سردی میں مارا مارا پھر رہا ہے ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی دوسرے بچے جو انڈے بیچ رہے ہیں، یہ وہ بچے ہیں جن کو اگر سردی لگ بھی جائے تو اپنے کولر میں بھرے انڈوں سے ایک انڈہ نہیں کھا پاتے کیونکہ چند انڈے ہی انکی ساری رات کی کمائی ہوتے ہیں۔پھر ہم نے اس بچے سے سارے انڈے خرید لیے۔میں نے اپنے دوستوں کو کہا کہ کیوں نہ اس بچے کو چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا جائے،تاکہ یہ پڑھ لکھ سکے اس کا مستقبل بن جائے۔میرے دوست بولے کہ جناب اس بچے کو آپ چائیلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے تو کردیں گے اس سے بچے کا مستقبل بھی بن جائے گا لیکن اس کے گھر والوں کا کیا ہوگا جن کیلئے یہ اس وقت مارا مارا پھر رہا ہے۔اس آمدنی کا کیا ہوگا جو یہ بچہ گھر لیکر جاتا ہے۔میں نے کہا بات تو کسی حد ٹھیک ہے۔اب یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ چھوٹے سے بچے کو پڑھائی چھوڑ کر کام کرنا پڑ رہا ہے ۔اپنے خاندان کو پالنے کیلئے بڑا بننا پڑ رہا ہے۔اگرحکومت او ر چائیلڈ پروٹیکشن بیورو والے اس جیسے بچوں کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی تحویل میں لینے کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والوں کیلئے بھی کچھ کریں۔کوئی وظیفہ ہی مقرر کر دیں تاکہ بچے کے ساتھ اس کے گھر والے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ہمارے ہاں اتنے ادارے این جی اوز ہیں جو غریبوں کی مدد کیلئے کام کرتے ہیں لیکن نہ جانے کہا ں ہیں ؟

میری حکومت اور چائیلڈ پروٹیکشن بیورو سے استدعا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ کار وضع ہونا چاہیے جس سے ان جیسے بچوں کے گھر بھی چل سکیں،اور آخر میں ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے گردونواح کے لوگوں کے بارے معلومات ضرور رکھیں۔ہمارا حال یہ ہو چکا ہے کہ ہمیں برما اور شام کے مسلمانوں کیلئے تو چندہ اکٹھا کرنے کے کیمپ لگانے آتے ہیں۔لیکن ساتھ والے گھر میں فاقوں کی نوبت ہے معلوم ہی نہیں۔


السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ! امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے کافی دنوں سے کچھ اس طرح کی مصروفیات نے گھیرا ہوا ہے کہ نہ اخبارات پڑھ سکا، نہ ہی ٹی وی دیکھ سکا، ایک تشنگی کے ساتھ اطمینان کی کیفیت چھائی رہی کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے۔میں بہت مصروفیت کے بعد آج رات مجھے قلم اٹھانے کا خیال آیا ،لیکن اپنے خیالات میں سے چند کو اپنی کاپی میں قلمبند کرنے کا خیال آیا۔اس میں بھی میرا من لڑ رہا تھا کہ چھوڑو بھئی ،بہت سے قلمکار ہیں تولکھنے کی کیا ضرورت؟لیکن میرا ہاتھ میرے جذبات و احساسات میرا قلم آخر کار جیت کی خوشی لئے اٹھ ہی گیا اور کچھ ہی لمحوں کی تاخیر سے یہ تحریر شروع ہوئی۔لکھنا شروع کیا تو ہاتھ قابو میں نہیں آرہے تھے لیکن میں نے بھی ان کو ماموں بنانے کی کوشش کی ،وہ ایسے کہ میرے پاس لکھنے کے لئے تو بہت کچھ تھا لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں ؟ کون سا عنوان قارئین کو لبھائے گا؟ کون سا عنوان میری تحریر کو خوبصور ت بنائے گا؟کون سا عنوان توجّہ کا مرکز بنے گا؟ کیونکہ اگر میں نے ہاتھ ،جذبات و احساسات کو نہیں تھاما تو تحریر بہت طویل ہوجائے گی اور جو آپ قارئین ہیں ان میں سے اکثر پوری نہیں پڑھیں گے ،اکثر اس کی طوالت دیکھ کر چھوڑ دیں گے اور چند ہی ہوں گے جو پڑھیں گے ان میں سے بھی نوجوان کم اور بزرگ زیادہ ہوں گے۔حالانکہ میں جوانوں اور نوجوانوں کو مخاطب اور متوجہ کرنا چاہ رہا ہوں ۔

اسی لئے میں نے قلم اٹھایا اور اس تمہید اور کیفیت کے بعد وکیل بھائیوں کے بارے میں لکھنا شروع کیا ابھی توجہ ہی چاہی تھی لیکن اس سے پہلے میں ایک اہم شخصیت ،وکیل،سیاستدان،محسن ِپاکستان جن کا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہے
ان کے کچھ الفاظ پر اپنا کالم شروع کرنا چاہتا ہوں وہ یہ الفاظ ہیں ۔اتحاد ،اتفاق،تنظیم ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے میں اسی کا درس دیا ہے جو میںنے وکیل حضرات میں دیکھا ۔چشم فلک نے کم از کم پاکستان میں یہ منظر آج سے پہلے نہ دیکھا تھا ۔میں صبح نو بجے ہائی کورٹ اخبار چوک میں پونچھا تو دیکھا کہ ہر طرف وکیل ہی وکیل موجود تھے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اپنے دوستوں کے ساتھ الیکشن کی کمپین کےلئے کھڑاتھا سب دوستوں سے ملاقات کے بعد عا مر سعید راں کے الیکشن آفس میں گیا وہاں ہر جگہ عامر صاحب کی ہر طرح کی عمدہ تصویر موجود تھی ۔ان سب دوستوں کے ساتھ میں نے ایک ماہ رہا اور میں بھی وکیل فیملی کا حصہ بن گیا میں نے وکیل حضرات کہ بارے میں بہت ہی غلط سنا تھا میرے دل میں بھی باقی لوگوں کی طرح خوف تھا پتانہیں یہ کیسے لوگ ہوں گے لیکن میر ی سوچ کے برعکس ہوا معاشرے میں ان کو ایک الگ سوچ اور نظریے سے دیکھا اور ا ن کے خلاف لکھا جاتا ہے لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ سچ کو سامنے لا کر بات کرئے ۔یہ بھی کسی ماں کی اولاد ہیں یہ بھی کسی بہن کے بھائی ہیں یہ بھی معاشرے اور پاکستا ن کی پہچان ہیں

یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیں انصاف فرہم کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو ہم سے پیار اپنوں سے کئی ذیادہ کرتے ہیں لیکن میں اپنے تحریر کی طرف آتا ہوں میں ہر سوسائٹی میں گیا ہوں ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارہ ہے لیکن میں فخر محسوس کرتا ہوں میں ان اپنے وکیل بھائیوں کےساتھ رہا ہوں جن کا میں نام فخر سے 
لینا چاہتاہوں لاہور بارایسویشن کے موجودہ سیکرٹری عامر سعید راںایڈووکیٹ ہائی کورٹ ، طاہر نصراللہ وڑائچ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ،حافظ عاکف طاہرایڈووکیٹ، حماد اکرم ایڈووکیٹ ، افسر رضاایڈووکیٹ ، احمد ونیس ایڈووکیٹ ، کاشف بھٹی ایڈووکیٹ ، رائے خرم خان ایڈووکیٹ ،امان اللہ ایڈووکیٹ ، میڈئم سدرہ ایڈووکیٹ،میڈئم فائزہ فیاض چوہدری وغیرہ ساتھ رہا ۔میں نے انکی صفوں میں اتحاد موجود دیکھا۔

یہ وکیل ہیں جو ہر مشکل وقت میں ایک تنظیم ایک آواز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگوں عورت ذات کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں

کبھی کسی وکیل کے منہ سے کوئی غلط بات نہیں سنی ۔ جس کو بھی میں نے دیکھا ہے وہ عورت کو بہت ہی احترام سے اور عزت سے بات کرتے ہو ئے دیکھا ہے ۔ ،میرا دل نہیں کرتا تھا وہاں سے ان سب کو چھوڑ کر کسی اور جگہ جاﺅ لیکن میں ایک عظم ،ہمت ،حوصلہ ،اور جذبہ اور بہت سارابھائیوں کا پیار لے کر واپس آیا اور میں بھی ایک دن ایک ان سب کی طرح ایک اچھا وکیل بنو گا اور ایک اچھا لیڈ عامر سعید راں کی طرح بغیر کسی اپنے مقصد لوگوں کی مدد ،کام آیا کرو گا ۔ 

اپنے ملک اور قوم کام نام روشن کرو گا اس خواب کو اپنی آنکھوں میں سجا کر اپنے گھر واپس آگیا ،میں دعا کرتا ہوں کہ تمام امت مسلم ان بھائیوں جیسا جذبہ ہر ایک کودیے۔اور اللہ پاک تما م امت مسلم میں میرے ا ن بھائیوں کی طرح اتحاد پیدا کر دے ،اتفاق پیدا کرے جس طرح انہوں نے اس الیکشن میں میں دن رات کر کے ایک سچے ،پکے ،لیڈر کو آگے لایا

Teacher Appreciation Gift Ideas

Wondering how you can thank your child’s teachers and show your gratitude for everything they do? We asked teachers to tell us about their favorite gifts for Teacher Appreciation Week, holidays or the end of the school year. They provided these inspiring ideas!
“At our school they have a theme for each day of teacher appreciation week. They send a note home to let parents know what each day is and parents can send in the items if they wish. They have had: flowers (each child brings one flower or a bouquet to the teacher), snacks (lots of chocolate), cards (home made or bought), fruit, and other items.”
– Emily H.

“I have been teaching for almost 30 years. It is always nice to be recognized on Teacher’s Appreciation Day. My favorite gifts were notes from children, but I also loved coffee gift cards, stickers, and spiral note books. A simple mug for coffee or even a passing ‘thank you’ would mean so much!”
– Sally H.

“I am a huge coffee drinker, so students love to give me crazy coffee cups, and some give me gift certificates or cards to coffee places. I would love to have a gift card to get teaching supplies. I love Oriental Trading products for my classroom! One of the most unique gifts I received was a stationery card set that the student and mom made themselves with stamping kits. I also once received a stepping stone for my garden that the student and his mom painted and coated in sealant. That stone has been in my flower garden for three years now!”
– Sarah O.

“I have gotten personalized note pads or plants which have been nice. Gift cards of any kind are always welcome.”
– Pam B.

“I have received many lovely gifts from my students. One of my favorites: a real apple. It is simple and sweet. Gift cards are great. A parent asked if she could purchase an item for the classroom in her son’s name.”
– Michelle A.

“I taught elementary for 39 years before retiring. In those years I received many gifts from my students and all the gifts were special. One that I remember receiving that was extra special was in my 6th year of teaching. This little girl was a 3rd grader and never would say anything but just smile at me. At Christmas time she came up to me and said, ‘I couldn’t get you a nice gift – this is all I can give you’ and she handed me a plate of homemade cookies and candy. I told her it was the best gift she could ever give me. I love homemade cookies and candy. I will always remember her.”
– Sharon K.

“I have to say that my favorite teacher appreciate week gift was a pedicure to my favorite spa. The student who gave it to me said that I am always on my feet and that I deserved a little ‘pampering!’ Too cute! This was definitely a memorable gift and a relaxing way to end the school year.”
– Erin C.

“My favorite gift was from a kindergartner. The little boy observed other students bringing me Christmas gifts and putting them under the Christmas tree. He did not have a gift to bring, so somewhere he found some wrapping paper and wrapped up an old eraser he had. When he gave it to me, he was so proud! When I opened it, I told him how much I needed an eraser. I made sure he saw that I used it every day. What a gift from the heart!”
– Dianne P.

Looking for more ways to show teacher appreciation? Read our article,“Smart Ways to Show Teacher Appreciation”.

A Rainbow of Fractions

Fractions are an essential part of our math curriculum in third grade. While some students get the concept right away I had others that struggled with the mere concept of a fraction. That was until I added some fraction fun to our daily math routine. A few hands-on colorful ideas that are quick to prepare and easy to implement will have your students mastering fractions in no time.
What You’ll Need:
To introduce fractions, I encouraged my students to explore with the Fraction Tiles. These colorful pie-shaped fractions easily create a whole circle in units from 1/2 to 1/10. This helped to model a clear picture as to which fraction is greater. 1/3 or 1/8. There were lots of discussions of pie, the yellow 1/4 was quickly identified as lemon, the pink 1/3 was strawberry and the blue 1/2 was of course blueberry. I asked my students, “Which piece of pie would you like to eat?”…”The biggest one of course,” they all replied.
My students partnered up to play a game of war with the fraction tiles. They would each grab a fraction piece from their pile and challenge their partner, whomever had the larger fraction got to keep the other person’s tile. This was a riot to watch! It started out slow and quickly ramped up as they started to identify which fractions were larger and how they compared to each other. I then showed my students how to create their own fraction circles using the colorful paint chip circles. They quickly knew just where to draw their lines by comparing them to the fraction circles.
After we practiced dividing the circles up into fractions my students were ready to create some rainbow fractions. I printed some adorable clouds and used black baker’s twine to attach them to the cloud. We created the cutest fraction rainbows that instantly brightened up our classroom walls.
To get started have students lay their paint chip circles out in rainbow order red-orange-yellow-green-blue-purple. Then start with one whole on the red circle, then 1/2, 1/3, 1/4,1/5 and 1/6. My students first drew their lines in pencil then traced over it with a black marker. Once they were done they hole punched them and strung them onto their clouds.
We hung these on our desks for a while. They were easy to reference and really helped students visualize each fraction as they compared them with their daily assignments. When they were no longer needed the clouds made a cute addition to our spring bulletin board.
For more practice with fractions we tried using rainbow candy . Each student took 8 pieces then sorted and counted the pieces. In their math journals they drew their candy and wrote the fraction for each color. For example, if 3 of the 8 pieces were red there were 3/8 red candies and so on. This part was a fun treat! My math super stars just loved a little hands-on fraction fun!
Teaching fractions doesn’t have to be a struggle. Try one of these colorful ideas and your students will master fractions in no time!